جنسی تعلیم اور جنسی جرائم سے بچاؤ کے 5 حیران کن طریقے جو ہر والدین کو معلوم ہونے چاہئیں

webmaster

성교육과 성범죄 예방 - **Prompt:** A heartwarming scene of a caring mother, around 30-40 years old, sitting comfortably on ...

آج کے اس تیزی سے بدلتے ہوئے دور میں جہاں ہر طرف معلومات کا سیلاب ہے، کچھ ایسے موضوعات بھی ہیں جن پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن ہم اکثر ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میرے پیارے دوستو اور قارئین، میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ جنسی تعلیم اور اپنے بچوں کو جنسی جرائم سے بچانے کے بارے میں کھل کر بات کرنا اب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں، تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے بچوں کی دنیا کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے، اور اس کے ساتھ ہی نئے اور پوشیدہ خطرات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ میں خود حیران رہ گئی جب میں نے دیکھا کہ معلومات کی کمی اور شرم کی وجہ سے کتنے معصوم بچے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے حالات کا شکار ہو جاتے ہیں جن سے انہیں باآسانی بچایا جا سکتا تھا۔ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں یہ حساس موضوع کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے بلکہ ہمارے خاندانوں اور معاشرے کی مضبوطی کی بنیاد بنے۔ میرا دل کہتا ہے کہ اگر ہم آج ان حقائق کو قبول کر لیں اور اپنے بچوں کو صحیح رہنمائی فراہم کریں، تو ہم نہ صرف انہیں محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ ایک باشعور اور صحت مند نسل کی آبیاری بھی کر سکتے ہیں۔ یہ صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ آئیے، اس اہم مسئلے کی گہرائی میں اترتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہم سب مل کر کیسے ایک محفوظ اور روشن مستقبل بنا سکتے ہیں۔ نیچے دیے گئے بلاگ پوسٹ میں اس بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔

성교육과 성범죄 예방 관련 이미지 1

بچوں سے بات چیت کی اہمیت: وہ پل جو بھروسہ بناتے ہیں

میرے پیارے والدین، یہ ایک ایسی بات ہے جس پر میں برسوں سے زور دیتی آ رہی ہوں اور آج پھر کروں گی: اپنے بچوں سے بات چیت کا سلسلہ کبھی نہ توڑیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بچے چھوٹا محسوس کرتے ہیں یا کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنے والدین کا سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے پہلے سے ہی اعتماد کی یہ بنیاد نہ بنائی ہو تو بچے ہم سے کھل کر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کی بیٹی اسکول سے واپس آ کر چپ چاپ رہتی تھی، حالانکہ وہ ہمیشہ چہکتی رہتی تھی۔ میری دوست نے شروع میں اسے نظرانداز کیا، لیکن پھر جب اس نے پیار سے بیٹی سے پوچھا اور اسے یقین دلایا کہ وہ ہر حال میں اس کے ساتھ ہے، تو بیٹی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے صرف تھوڑی سی توجہ اور اعتماد نے ایک بڑے مسئلے کو حل کر دیا۔ بچوں کو یہ احساس دلانا بہت ضروری ہے کہ ہم ان کی ہر بات سنیں گے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی یا عجیب کیوں نہ ہو۔ یہ صرف سکون نہیں دیتا بلکہ انہیں یہ ہمت بھی دیتا ہے کہ وہ کسی بھی پریشانی میں سب سے پہلے آپ کی طرف رجوع کریں۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ایک مضبوط قلعے کی طرح بچوں کو ہر بیرونی خطرے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے، انہیں صرف کھل کر بات کرنے کا موقع دیں، اور پھر دیکھیں کہ وہ کس طرح اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑے مسائل تک آپ سے شیئر کرنے لگتے ہیں۔ یہ گفتگو ہی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور انہیں محفوظ رکھتی ہے۔

بات چیت کو آسان بنانا: صحیح سوالات کا انتخاب

بھروسہ اور احترام کی بنیاد پر تعلق

“اچھا لمس” اور “برا لمس”: حدود کا تعین

Advertisement

میں جانتی ہوں کہ یہ موضوع ہمارے معاشرے میں اکثر شرمندگی کا باعث بنتا ہے، لیکن یقین کریں یہ ہمارے بچوں کی حفاظت کے لیے سب سے بنیادی سبق ہے۔ میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ جب ہم بچوں کو “اچھا لمس” اور “برا لمس” کے بارے میں واضح طور پر نہیں بتاتے، تو وہ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کس چیز پر انہیں کیسا ردعمل دینا چاہیے۔ بہت سال پہلے جب میں ایک این جی او کے ساتھ کام کر رہی تھی، تو ایک بچی نے مجھے بتایا کہ اسے ایک رشتہ دار کی چھونے کا طریقہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ جب میں نے مزید پوچھا تو پتہ چلا کہ اسے “برا لمس” کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر اسے پہلے سے اس بارے میں آگاہی ہوتی، تو شاید وہ پہلے ہی اس صورتحال سے نکل سکتی تھی۔ یہ صرف جسمانی حدود کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بچوں کو ان کے جسم پر ان کا حق سکھانے کے بارے میں ہے۔ انہیں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ان کا جسم ان کی ملکیت ہے اور کوئی بھی انہیں ان کی مرضی کے بغیر چھو نہیں سکتا، یہاں تک کہ رشتہ دار یا دوست بھی نہیں۔ ہمیں انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ اگر کوئی انہیں اس طرح چھوئے جو انہیں برا لگے یا انہیں عجیب محسوس ہو، تو انہیں فوراً “نہیں” کہنا ہے اور کسی بڑے کو بتانا ہے جس پر وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ درس انہیں خود اعتمادی دیتا ہے اور انہیں اپنی حفاظت کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی دیوار ہے جو انہیں غیر متوقع حالات سے بچاتی ہے۔

نجی حصوں کی شناخت اور احترام

“نہیں” کہنے کا حق اور سنے جانے کی اہمیت

انٹرنیٹ کی دنیا اور پوشیدہ خطرات: سائبر سیکیورٹی کا سبق

آج کے دور میں بچے پیدا ہوتے ہی سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی دنیا سے واقف ہو جاتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح بچے گھنٹوں موبائل پر گیمز کھیلتے ہیں یا ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جس میں بے پناہ فوائد بھی ہیں اور بے پناہ خطرات بھی۔ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا ہم انہیں اس وسیع دنیا میں تنہا چھوڑ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ماں نے مجھے بتایا کہ اس کا بیٹا آن لائن گیمز میں کچھ ایسے لوگوں سے بات چیت کرنے لگا تھا جو اس سے نجی معلومات پوچھ رہے تھے۔ وہ ماں بہت پریشان تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اس واقعے نے مجھے یہ سکھایا کہ ہمارے بچوں کو نہ صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے کے اصول سکھانے ہیں بلکہ انہیں آن لائن خطرات سے بھی آگاہ کرنا ہے۔ انہیں یہ بتانا کہ وہ کس قسم کی معلومات آن لائن شیئر نہیں کر سکتے، جیسے اپنا پورا نام، پتہ، اسکول کا نام یا تصاویر۔ انہیں یہ بھی سمجھانا ضروری ہے کہ اجنبیوں سے بات چیت کرتے وقت محتاط رہیں اور کبھی بھی ذاتی طور پر کسی آن لائن دوست سے ملنے نہ جائیں جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر انہیں آن لائن کچھ ایسا نظر آئے جو انہیں خوفزدہ کرے یا پریشان کرے تو وہ فوراً ہم سے بات کریں، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔ یہ وہ سائبر سیکیورٹی کا سبق ہے جو انہیں ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ رکھتا ہے۔

آن لائن اجنبیوں سے احتیاط

نجی معلومات کا تحفظ اور رپورٹنگ

اپنے بچے کی اندرونی آواز کو سننا: علامات اور اشارے

یہ میری ذاتی رائے ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے رویے میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔ بچے اکثر اپنی پریشانیوں کو الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے، لیکن ان کا رویہ، ان کی حرکات و سکنات اور ان کی عادات میں ہونے والی تبدیلیاں ہمیں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ مجھے ایک ایسے بچے کا واقعہ یاد ہے جو پہلے ہنستا کھیلتا تھا، لیکن پھر اچانک چڑچڑا ہو گیا، اسکول جانے سے کترانے لگا، اور راتوں کو ڈرنے لگا۔ اس کے والدین کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے۔ جب انہوں نے غور کیا اور اس سے نرمی سے بات کرنے کی کوشش کی تو بہت مشکل سے وہ اپنے دل کی بات بتا پایا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان اشاروں کو پہچانیں اور انہیں نظرانداز نہ کریں۔ اگر آپ کا بچہ اچانک الگ تھلگ رہنے لگے، اسکول کے کام میں دل نہ لگائے، یا اس کی نیند میں خلل آئے، تو یہ ممکنہ طور پر کسی پریشانی کی علامت ہو سکتی ہے۔ ہمیں انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ ہم ان کی پریشانیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہر صورت ان کا ساتھ دیں گے۔ انہیں یہ یقین دلانا کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور ہم ہر مشکل میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ رویے میں تبدیلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی ہے جو ہمیں بروقت کارروائی کرنے میں مدد دیتی ہے اور بچوں کو مزید نقصان سے بچاتی ہے۔

رویے میں تبدیلی ممکنہ وجہ والدین کا ردعمل
اچانک تنہا رہنا پریشانی، خوف، اندرونی کشمکش نرمی سے بات کریں، وقت دیں، اعتماد دلائیں
اسکول سے غیر حاضری اسکول میں کسی مسئلے کا سامنا، دھمکی یا خوف اسکول انتظامیہ سے رابطہ کریں، بچے سے پوچھیں
نیند میں خلل، ڈراؤنے خواب دباؤ، ذہنی پریشانی، کسی واقعے کا اثر ماہر سے رجوع کریں، سکون پہنچائیں
چڑچڑاپن یا غصہ احساس کمتری، کسی بات پر تکلیف غور سے سنیں، تنقید سے گریز کریں، وجہ معلوم کریں
Advertisement

غیر معمولی رویوں کو پہچاننا

احساس تحفظ اور فوری اقدام

والدین کی تربیت: خود کو بااختیار بنانا

میں یہ بات بہت وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم والدین کو بھی خود کو مسلسل تعلیم دیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ بہت واضح طور پر دیکھا ہے کہ بہت سے والدین، خود بھی اس قسم کی معلومات سے نابلد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے۔ یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے؛ ہم سب سیکھنے کے عمل میں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ہمیں بھی اس بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں ورکشاپس، آن لائن وسائل، اور ماہرین سے مدد لینی چاہیے تاکہ ہم جنسی تعلیم اور بچوں کے تحفظ کے بارے میں اپنی معلومات کو بہتر بنا سکیں۔ یہ صرف بچوں کے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ جب ہم بااختیار ہوں گے، جب ہمیں خود صحیح معلومات ہوں گی، تو ہم زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے بچوں سے بات کر سکیں گے اور انہیں درست مشورہ دے سکیں گے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے خود اس موضوع پر تحقیق شروع کی تو کتنی نئی باتیں میرے سامنے آئیں جن کا مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں ہم سب کو مل کر چلنا ہے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر، تاکہ ہم اپنے گھروں اور بچوں کو محفوظ بنا سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معلومات ہی طاقت ہے، اور یہ طاقت ہمیں اپنے بچوں کو ہر قسم کے خطرات سے بچانے میں مدد دے گی۔

ماہرین سے مشاورت اور رہنمائی

وسائل کا استعمال اور ذاتی علم میں اضافہ

سکول اور معاشرتی کردار: مشترکہ ذمہ داری

Advertisement

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ صرف والدین کی ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں ہمارے اسکولوں اور پورے معاشرے کا بھی اس میں اتنا ہی اہم کردار ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اسکولوں میں ان موضوعات پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، حالانکہ بچے اپنا آدھا دن وہیں گزارتے ہیں۔ اگر اسکول بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں، نصاب میں ایسے مواد کو شامل کریں جو بچوں کو محفوظ رہنے کی تعلیم دے، تو اس سے بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ بچوں کو اسکول میں ایک ایسا محفوظ ماحول ملنا چاہیے جہاں وہ کسی بھی پریشانی کو کھل کر بیان کر سکیں۔ اساتذہ کو بھی اس حوالے سے تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ بچوں کے رویے میں تبدیلیوں کو پہچان سکیں اور ان کی مدد کر سکیں۔ اسی طرح، ہمارے محلے اور علاقے کی سطح پر بھی ایسے پروگرام ہونے چاہئیں جو والدین اور بچوں دونوں کو اس حوالے سے آگاہی دیں۔ میں نے کئی بار یہ محسوس کیا ہے کہ جب ہم سب مل کر کام کرتے ہیں تو نتائج زیادہ بہتر آتے ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں بچے ہر قسم کے خوف اور خطرے سے آزاد ہوں اور کھل کر زندگی گزار سکیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہے تاکہ کوئی بھی بچہ اکیلا محسوس نہ کرے۔ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس کے ثمرات پوری نسلوں پر پڑیں گے۔

اسکول میں محفوظ ماحول کی فراہمی

معاشرتی سطح پر آگاہی مہمات

خوف کو ختم کرنا: کھل کر بات کرنے کی ہمت

میرے عزیز قارئین، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں سے اس موضوع پر بات کرنے کا خوف نکال دیں۔ میں نے اپنی زندگی میں بارہا دیکھا ہے کہ شرم اور جھجک کی وجہ سے ہم بہت سے اہم معاملات کو چھپا لیتے ہیں اور ان پر بات نہیں کرتے۔ لیکن کیا اس سے مسائل حل ہوتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ بلکہ وہ اور بھی گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میں خود اس بات کی قائل ہوں کہ جب ہم کسی چیز کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں، تو اس کی تاثیر کم ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہے کہ جنسی تعلیم اور جسمانی تحفظ کے بارے میں بات کرنا کوئی گناہ یا شرم کی بات نہیں ہے۔ یہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، جیسے ہم کھانے پینے اور صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جب ہم خود اعتماد سے اس موضوع پر بات کریں گے تو ہمارے بچے بھی اسے عام سمجھیں گے اور ہم سے کھل کر اپنے مسائل شیئر کر سکیں گے۔ یہ ہچکچاہٹ اور شرم کا خاتمہ ہی ہمیں ایک ایسے مضبوط مستقبل کی طرف لے جائے گا جہاں ہمارے بچے خوف سے آزاد ہو کر ایک صحت مند اور محفوظ زندگی گزار سکیں گے۔ یاد رکھیں، خاموشی اکثر سب سے بڑا دشمن ثابت ہوتی ہے، اس لیے اپنی آواز بلند کریں، اپنے بچوں کی آواز بنیں، اور انہیں محفوظ رکھیں۔

شرم اور جھجک سے آزادی

صحت مند گفتگو کا آغاز

성교육과 성범죄 예방 관련 이미지 2

ختم شدہ تحریر

میرے پیارے قارئین، آج ہم نے بچوں کی حفاظت کے چند اہم ترین پہلوؤں پر بات کی ہے۔ یہ تمام موضوعات ایسے ہیں جن پر کھل کر بات کرنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ ان تمام باتوں کو آپ کے سامنے ایک دوست اور ہمدرد کے طور پر رکھوں تاکہ آپ بھی انہیں اپنے دل میں اتار سکیں۔ مجھے امید ہے کہ میری باتیں آپ کے دل کو چھو گئی ہوں گی اور آپ کو اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور حفاظت کے لیے ایک نیا راستہ ملے گا۔ یاد رکھیں، آپ کا بچہ آپ کے لیے سب کچھ ہے اور اس کی حفاظت آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

Advertisement

جاننے کے لیے مفید معلومات

1. اپنے بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کریں، ان کی باتوں کو توجہ سے سنیں، چاہے وہ کتنی بھی چھوٹی کیوں نہ ہوں۔ یہ اعتماد کی بنیاد بناتا ہے۔

2. “اچھے لمس” اور “برے لمس” کے بارے میں انہیں واضح طور پر سکھائیں اور انہیں یہ حق دیں کہ وہ کسی بھی ناپسندیدہ صورتحال پر “نہیں” کہہ سکیں۔

3. انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے اصولوں سے انہیں آگاہ کریں، نجی معلومات شیئر کرنے سے منع کریں اور آن لائن اجنبیوں سے محتاط رہنے کی تلقین کریں۔

4. بچوں کے رویے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھیں؛ یہ اکثر ان کی اندرونی پریشانیوں کا اشارہ ہوتی ہیں۔

5. بحیثیت والدین، خود بھی ان موضوعات پر معلومات حاصل کرتے رہیں اور ضرورت پڑنے پر ماہرین سے رہنمائی لیں۔

اہم نکات کا خلاصہ

بچوں کے ساتھ کھلی اور ایماندارانہ بات چیت ضروری ہے۔ انہیں اچھے اور برے لمس کی تمیز سکھائیں۔ انٹرنیٹ کے خطرات سے آگاہ کریں اور محفوظ استعمال کی تربیت دیں۔ ان کے رویے میں تبدیلیوں کو سمجھیں اور بروقت مداخلت کریں۔ والدین کی تربیت اور معلومات کا حصول بچوں کی بہتر حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔ آخر میں، یہ صرف والدین کی نہیں بلکہ اسکول اور پورے معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہمارے بچے ہر قسم کے خطرے سے محفوظ رہیں۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: بچوں کو جنسی تعلیم دینا کیوں ضروری ہے؟

ج: دیکھو میرے پیارے دوستو، جب میں نے خود اس موضوع پر غور کیا، تو مجھے احساس ہوا کہ جنسی تعلیم کا مطلب صرف جنسی تعلقات کے بارے میں سکھانا نہیں ہے۔ ارے نہیں!
یہ تو بہت وسیع چیز ہے۔ یہ دراصل ہمارے بچوں کو ان کے اپنے جسم کے بارے میں، اچھے اور برے لمس کے بارے میں، اور سب سے بڑھ کر، اپنی حفاظت کے بارے میں سکھاتی ہے۔ میرا اپنا تجربہ کہتا ہے کہ جب ہمارے بچے کو معلومات ہوتی ہے، تو وہ زیادہ پراعتماد ہوتا ہے اور کسی بھی غلط صورتحال میں اپنے والدین یا کسی قابل اعتماد بڑے سے بات کرنے کی ہمت کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں نا کہ ہمارے بچے کسی خوف یا شرم کی وجہ سے خاموش نہ رہیں؟ انہیں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ان کا جسم ان کی ملکیت ہے اور کوئی بھی ان کی مرضی کے بغیر اسے چھو نہیں سکتا۔ جب میں نے یہ سب اپنے اردگرد دیکھا تو مجھے واقعی محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک ضرورت نہیں بلکہ والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم انہیں یہ بنیادی معلومات نہیں دیں گے، تو وہ دنیا میں موجود ان پوشیدہ خطرات سے کیسے بچیں گے جن کے بارے میں ہم خود اتنے پریشان رہتے ہیں؟

س: ہم اپنے بچوں سے جنسی موضوعات پر بات چیت کیسے شروع کریں؟

ج: مجھے پتا ہے، یہ سوال بہت سارے والدین کو پریشان کرتا ہے، اور سچ کہوں تو میں خود بھی ایک وقت میں بہت ہچکچاتی تھی۔ لیکن میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اس بات چیت کو کوئی بڑا “لیکچر” نہ بنائیں۔ اسے قدرتی اور روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ جیسے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جب آپ پودوں یا جانوروں کی پیدائش کے بارے میں بات کرتے ہیں، یا جب بچے ڈاکٹر کے پاس سے آتے ہیں اور جسمانی صحت پر بات ہوتی ہے، تو یہ بہترین مواقع ہوتے ہیں ایسی گفتگو شروع کرنے کے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کے سوالات کا ایمانداری سے جواب دیں، ان کی عمر کے مطابق آسان اور سادہ الفاظ میں۔ انہیں یہ یقین دلائیں کہ آپ ان کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیشہ موجود ہیں، چاہے وہ کتنا ہی “عجیب” کیوں نہ لگے۔ میری اپنی رائے میں، اگر ہم ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں بچے یہ محسوس کریں کہ وہ ہم سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں، تو وہ ہم سے کچھ چھپائیں گے نہیں اور ہمیں ان پر زیادہ بھروسہ ہوگا۔ آخر کار، ہم سب اپنے بچوں کے بہترین دوست بننا چاہتے ہیں نا؟

س: ہم اپنے بچوں کو جنسی استحصال سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

ج: یہ وہ پہلو ہے جس پر میرا دل سب سے زیادہ زور دیتا ہے اور جو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے، اپنے بچوں کو ‘اچھی چھونے’ اور ‘بری چھونے’ کا فرق سکھائیں۔ انہیں یہ بات واضح طور پر بتائیں کہ ان کے جسم پر کوئی بھی شخص، چاہے وہ کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ان کی مرضی کے بغیر انہیں چھو نہیں سکتا، خاص طور پر وہ حصے جو ان کے “نجی” ہیں۔ یہ بھی سکھائیں کہ اگر کوئی انہیں برا چھوئے، یا انہیں کچھ ایسا کرنے کو کہے جو انہیں بالکل ٹھیک نہ لگے، تو انہیں فوراً چیخ کر “نہیں!” کہنا ہے اور وہاں سے بھاگ کر آپ کو یا کسی قابل اعتماد بڑے کو بتانا ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ‘نو’ کہنا اور مدد مانگنا سکھائیں۔ میرا یقین ہے کہ کوئی بھی راز کسی نقصان سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی انہیں کہے کہ “یہ ہمارا راز ہے، کسی کو مت بتانا”، تو انہیں فوراً بتانا چاہیے کہ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب بچے بااختیار محسوس کرتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والدین ان کی بات سنیں گے اور ان پر بھروسہ کریں گے، تو وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی، انہیں محفوظ دیکھنا۔

Advertisement