السلام علیکم! میرے پیارے دوستو، آپ سب کیسے ہیں؟ میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ آج کا ہمارا موضوع کچھ ایسا ہے جس پر ہمارے معاشرے میں کھل کر بات کرنا آج بھی ایک مشکل کام سمجھا جاتا ہے، مگر سچ کہوں تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ خاص طور پر جب بات ہمارے پیارے بچوں کی حفاظت اور ان کے مستقبل کی ہو، تو اب چپ رہنا خود اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ آج کل ہر طرف معلومات کا سیلاب ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر طرح کی معلومات ہم تک پہنچ رہی ہے، لیکن اس میں صحیح اور غلط کی تمیز کرنا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کو ان اہم باتوں سے دور رکھتے ہیں، تو وہ اکثر غلط معلومات کا شکار ہو جاتے ہیں، یا پھر ایسے حالات کا سامنا کرتے ہیں جن سے اگر انہیں صحیح رہنمائی ملی ہوتی تو بچایا جا سکتا تھا۔ یہ صرف تعلیم کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر انسان کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے کہ اسے اپنے جسم، اپنی حدود اور اپنی حفاظت کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صحیح رہنمائی اور بروقت آگاہی ہی انہیں نہ صرف آج بلکہ کل بھی ہر قسم کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو اس موضوع پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب مل کر اپنے بچوں کو ایک محفوظ مستقبل دے سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں وہ معلومات فراہم کریں جو انہیں بااختیار بنائے۔میرے عزیز دوستو، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے بچوں کو اپنے جسم اور اپنی ذاتی حفاظت کے بارے میں کون اور کیسے بتائے؟ یہ ایک بہت ہی نازک اور ضروری موضوع ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن اسے نظر انداز کرنا کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایسی معلومات دینی چاہیے جو انہیں لوگوں سے ملنے جلنے، بات چیت کرنے اور اپنے جسم کو سمجھنے میں مدد دے۔ اس سے وہ نہ صرف خود کو محفوظ رکھ پائیں گے بلکہ کسی بھی غلط صورتحال میں اپنی آواز بھی اٹھا سکیں گے۔ آج ہم اسی بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے کہ کیسے ہم سب مل کر اپنے بچوں کو ان اہم باتوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں، اگر انہیں بچپن سے ہی صحیح علم ہو تو کتنے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ تو آئیے، اس انتہائی اہم موضوع کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
بچوں کو اپنی ذات کی پہچان کیسے سکھائیں؟

میرے پیارے والدین اور سرپرستو، سب سے پہلے اور سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے جسم کے بارے میں صحیح اور مکمل معلومات دیں۔ اکثر اوقات ہم شرم یا جھجک کی وجہ سے ان موضوعات پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن سچ کہوں تو یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بچے اپنے جسم کے مختلف حصوں کے بارے میں نہیں جانتے، تو وہ کسی بھی غیر مناسب صورتحال کو پہچاننے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یہ سکھانا بہت ضروری ہے کہ ان کا جسم ان کی ذاتی ملکیت ہے اور کوئی بھی شخص ان کی مرضی کے بغیر اسے چھو نہیں سکتا۔ یہ بات محض جسمانی تعلیم نہیں بلکہ ان کے اعتماد اور خود مختاری کی بنیاد ہے۔ جب بچہ اپنے جسم کے بارے میں آگاہ ہوتا ہے، تو وہ زیادہ پر اعتماد محسوس کرتا ہے اور اسے پتا ہوتا ہے کہ کب اسے اپنی حدود کا دفاع کرنا ہے۔ میری اپنی زندگی کا تجربہ رہا ہے کہ جب ہم نے اپنے بچوں کو کھل کر ان موضوعات پر بتایا، تو ان کے سوالات بھی سامنے آئے اور ہم نے ان کا تسلی بخش جواب دیا، جس سے ان کا ہم پر اعتماد بڑھا اور وہ کسی بھی پریشانی میں سب سے پہلے ہمارے پاس آتے ہیں۔
جسم کے اعضاء کے نام سکھانا
آپ اپنے بچوں کو ان کے جسم کے ہر حصے کا صحیح نام بتائیں، خاص طور پر ان حصوں کا جنہیں ہم عام طور پر ‘نجی حصے’ کہتے ہیں۔ انہیں سمجھائیں کہ یہ حصے ان کے بہت خاص ہیں اور صرف وہی ان کو چھو سکتے ہیں (جب انہیں صفائی کرنی ہو یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہو)۔ یہ ایک سادہ سی بات لگتی ہے، لیکن اس سے بچوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کچھ حدود ایسی ہیں جنہیں کوئی اور پار نہیں کر سکتا۔ اگر آپ چھوٹے بچوں کو بتا رہے ہیں تو انہیں کھل کر اور سادہ الفاظ میں سمجھائیں کہ ان کے جسم کا ہر حصہ قیمتی ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے اپنے چھوٹے بھتیجے کو اس بارے میں سمجھایا تو پہلے تو وہ حیران ہوا لیکن پھر اس نے کچھ سوالات پوچھے، جن کا جواب دینے پر وہ مطمئن ہوگیا اور اس کے بعد اس نے اپنے جسم اور اپنی حفاظت کو زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جو انہیں آئندہ زندگی میں بہت سے غلط فیصلوں سے بچا سکتی ہے۔
نجی حصوں کی اہمیت اور تحفظ
بچوں کو یہ واضح طور پر سکھائیں کہ ان کے نجی حصے ان کے انتہائی ذاتی ہوتے ہیں اور انہیں کوئی بھی دوسرا شخص (سوائے والدین یا ڈاکٹر کے، وہ بھی خاص حالات میں) نہیں چھو سکتا۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ اگر کوئی انہیں ان جگہوں پر چھوئے جہاں انہیں برا لگے، تو انہیں فوراً ‘نہیں’ کہنا ہے اور وہاں سے ہٹ جانا ہے۔ یہ سکھانا بہت اہم ہے کہ ان کا جسم ان کا اپنا ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بچے بعض اوقات یہ نہیں سمجھ پاتے کہ کون سی چھونے کی قسم ٹھیک ہے اور کون سی نہیں۔ جب ہم انہیں یہ بنیادی فرق سکھا دیتے ہیں تو وہ بہت سے ممکنہ خطرات سے بچ سکتے ہیں۔ یہ گفتگو کبھی بھی ڈراؤنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے ایک معلوماتی انداز میں پیش کیا جائے تاکہ بچے خوفزدہ ہونے کے بجائے باخبر ہو سکیں۔
اچھی اور بری چھونے کی پہچان
جب ہم بچوں کو ان کے جسم کے بارے میں سکھا لیتے ہیں، تو اگلا اہم قدم یہ ہے کہ انہیں اچھے اور برے چھونے کا فرق سکھایا جائے۔ یہ شاید سب سے مشکل لیکن انتہائی اہم سبق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محبت، اپنائیت اور پیار کو محسوس کریں، لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی پتا ہو کہ کون سا لمس انہیں تکلیف دے سکتا ہے۔ ایک اچھا لمس وہ ہوتا ہے جو آپ کو آرام دہ اور محفوظ محسوس کرائے، جیسے والدین کا پیار بھرا گلے لگانا، یا دادا دادی کا شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنا۔ لیکن اگر کوئی چھونے کا انداز آپ کو عجیب، ڈراونا، یا تکلیف دہ محسوس ہو تو وہ برا لمس ہے۔ بچوں کو یہ سکھانا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے احساسات پر بھروسہ کریں اور اگر انہیں کسی لمس سے برا محسوس ہو تو فوراً کسی قابل اعتماد بڑے کو بتائیں۔ میں نے کئی بچوں کو دیکھا ہے جو کسی برے تجربے کے بعد ڈر کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن اگر انہیں پہلے سے ہی یہ آگاہی دی جائے کہ وہ اپنے احساسات پر توجہ دیں، تو وہ اس خاموشی کو توڑنے میں زیادہ آسانی محسوس کریں گے۔
چھونے کی اقسام اور ان کے اثرات
ہم اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں کہ چھونے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم وہ ہوتی ہے جو پیار، اپنائیت اور تحفظ کا احساس دلاتی ہے، جیسے آپ کی والدہ کا گلے لگانا، یا آپ کے دوست کا کندھے پر ہاتھ رکھنا۔ یہ وہ لمس ہیں جو دل کو سکون بخشتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو بعض اوقات حادثاتی ہوتی ہے، جیسے بھیڑ میں کسی کا لگ جانا، جو کہ عموماً بری نیت پر مبنی نہیں ہوتی۔ لیکن پھر ایک تیسری قسم بھی ہے جو پریشان کن ہو سکتی ہے، جس میں آپ کو ناگواری یا خوف محسوس ہو۔ بچوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ انہیں اپنے اندر کے احساسات کو سننا چاہیے۔ اگر کسی بھی لمس سے انہیں عجیب لگے، شرم آئے، یا تکلیف ہو، تو وہ اسے پہچانیں۔ یہ وہ معلومات ہے جو انہیں اپنی حفاظت کے لیے ابتدائی وارننگ سائنز کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ ہمیں یہ بات بالکل واضح کرنی چاہیے کہ کوئی بھی چھونے کا انداز جو انہیں غیر محفوظ محسوس کرائے، وہ قابل قبول نہیں ہے۔
ایسے لمس جو تکلیف دیں: کیا کریں؟
اگر بچوں کو کوئی ایسا لمس محسوس ہو جو انہیں تکلیف دے، ڈرائے یا شرمندہ کرے، تو انہیں فوراً ‘نہیں’ کہنا سکھائیں۔ یہ ‘نہیں’ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ان کے تحفظ کی پہلی دیوار ہے۔ انہیں یہ بھی سکھائیں کہ وہاں سے فوراً ہٹ جائیں اور کسی ایسے قابل اعتماد شخص کو بتائیں جس پر وہ مکمل بھروسہ کرتے ہوں، جیسے والدین، اساتذہ، یا کوئی دوسرا رشتہ دار۔ میں نے اپنی بھانجی کو سکھایا تھا کہ اگر اسے کسی سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہو تو وہ میرے پاس آ سکتی ہے اور اسے کسی بھی بات پر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک ایسی تربیت ہے جو انہیں اپنے اندرونی خوف سے لڑنے کی ہمت دیتی ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ ان کی بات سنی جائے گی اور ان پر یقین کیا جائے گا۔ انہیں کبھی بھی اس بات پر شرمندہ محسوس نہیں کرایا جانا چاہیے کہ وہ کسی ایسے شخص کے بارے میں بتا رہے ہیں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی ہو۔
اپنی حدود کا تعین کرنا
بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ اپنی ذاتی حدود کا تعین کیسے کریں، ایک بہت ہی اہم مہارت ہے۔ انہیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ ان کا ذاتی دائرہ کار کیا ہے اور کون اس میں داخل ہو سکتا ہے اور کون نہیں۔ انہیں یہ حق دیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون انہیں گلے لگا سکتا ہے، کون ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے، اور کون ان کے پاس کتنا قریب آ سکتا ہے۔ اس سے ان میں خود مختاری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے حقوق کے بارے میں باخبر ہوتے ہیں۔ یہ انہیں اپنے جسم پر کنٹرول کا احساس دلاتا ہے اور انہیں یہ طاقت دیتا ہے کہ اگر کوئی ان کی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کرے تو وہ آواز اٹھا سکیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے اپنے بیٹے کو یہ سکھایا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اسے کس کے ساتھ کس حد تک تعلقات رکھنے ہیں، تو اس میں اعتماد آیا اور اس نے کئی مواقع پر اپنی حدود کا دفاع کیا جو کہ میرے لیے اطمینان کا باعث تھا۔
اپنی آواز اٹھانا اور مدد مانگنا
بچوں کو اپنی حفاظت کے لیے سب سے اہم ہتھیار جو ہم دے سکتے ہیں، وہ ہے اپنی آواز اٹھانے کی ہمت اور مدد مانگنے کی صلاحیت۔ اکثر بچے، خاص طور پر چھوٹے، کسی نامناسب صورتحال میں خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں ڈرایا جاتا ہے یا انہیں یہ سکھایا نہیں جاتا کہ ایسی صورتحال میں کیسے رد عمل ظاہر کریں۔ میری زندگی میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جب میں نے بچوں کو دیکھا کہ وہ کسی غلط کام کے بعد بھی چپ رہتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں مزید تکلیف اٹھانی پڑتی تھی۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم انہیں یہ سکھائیں کہ اگر انہیں کوئی چیز ٹھیک نہ لگے تو وہ ‘نہیں’ کہیں اور کسی سے مدد مانگیں۔ یہ انہیں یہ باور کراتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور انہیں ہمیشہ سننے والا کوئی موجود ہے۔ یہ انہیں نہ صرف جسمانی بلکہ جذباتی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔
بچوں کو “نہیں” کہنا سکھائیں
یہ سب سے بنیادی اور سب سے طاقتور لفظ ہے جو ایک بچہ اپنی حفاظت کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ بچوں کو سکھائیں کہ اگر کوئی انہیں کچھ ایسا کرنے کو کہے جو انہیں عجیب لگے، یا کوئی انہیں اس طرح چھوئے جہاں انہیں ناگواری محسوس ہو، تو وہ بغیر کسی خوف کے زور سے ‘نہیں!’ کہیں۔ انہیں یہ سمجھائیں کہ ‘نہیں’ کہنا کوئی بے ادبی نہیں بلکہ اپنی حفاظت کا پہلا قدم ہے۔ اس کی مشق گھر پر بھی کروائی جا سکتی ہے، جیسے ایک کھیل کے طور پر، تاکہ وہ اس لفظ کو استعمال کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ایک چھوٹے شاگرد کو سکھایا کہ اگر کوئی اسے اس کی مرضی کے بغیر کسی بھی چیز پر مجبور کرے تو وہ فوراً ‘نہیں’ کہے، اور اس نے کئی مواقع پر اس لفظ کا استعمال کر کے اپنی حفاظت کی، جس پر میں نے اسے خوب سراہا۔
قابل اعتماد افراد کی نشاندہی
بچوں کو یہ سکھائیں کہ ان کی زندگی میں کون کون سے لوگ قابل اعتماد ہیں جن سے وہ کسی بھی پریشانی کی صورت میں بات کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ والدین، دادا دادی، نانا نانی، اساتذہ، یا گھر کے کوئی دوسرے بڑے افراد ہو سکتے ہیں۔ ایک فہرست بنائیں اور بچوں کے ساتھ اس پر بات کریں کہ اگر انہیں کوئی پریشانی ہو تو وہ کس سے بات کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ‘سیفٹی نیٹ’ بنانے جیسا ہے جو بچوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ جب بچے جانتے ہیں کہ انہیں کس پر بھروسہ کرنا ہے، تو انہیں کسی بھی مشکل صورتحال میں مدد مانگنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم خود بھی ان قابل اعتماد افراد کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ بچے کو ایک مکمل حفاظتی ماحول فراہم ہو سکے۔
مدد طلب کرنے کے طریقے
بچوں کو یہ بھی سکھائیں کہ مدد کیسے طلب کی جائے، خاص طور پر اگر وہ ایسی صورتحال میں ہوں جہاں انہیں فوراً خطرہ محسوس ہو۔ انہیں سکھائیں کہ وہ بھاگ کر کسی قابل اعتماد شخص کے پاس جائیں، شور مچائیں، یا اگر ممکن ہو تو کسی ایمرجنسی نمبر پر کال کریں۔ چھوٹے بچوں کے لیے، یہ یاد رکھنا کہ ‘کسی بڑے کو بتانا ہے’ سب سے اہم ہے۔ انہیں یہ بھی یقین دلائیں کہ ان کی بات سنی جائے گی اور انہیں کسی قسم کی سزا نہیں ملے گی اگر وہ کوئی بات بتاتے ہیں۔ یہ انہیں یہ اعتماد دیتا ہے کہ اگر وہ بولیں گے تو ان کے لیے ایکشن لیا جائے گا۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ جب بچوں کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا، تو وہ زیادہ آسانی سے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کی حفاظت
آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ہمارے بچے ڈیجیٹل دنیا میں ہم سے کہیں زیادہ فعال ہیں۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اور آن لائن گیمز ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی نئے خطرات بھی سامنے آئے ہیں۔ سائبر بلینگ، آن لائن ہراسانی، اور نامناسب مواد تک رسائی جیسے مسائل والدین کے لیے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔ میں نے خود کئی ایسے والدین کو دیکھا ہے جو اپنے بچوں کو آن لائن دنیا کے خطرات سے آگاہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ وہ خود اس دنیا سے زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ رہنے کے طریقے سکھائیں۔ انہیں یہ سمجھائیں کہ آن لائن دنیا میں ہر کوئی وہ نہیں ہوتا جو وہ دکھاتا ہے اور انہیں آن لائن اپنی ذاتی معلومات شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
آن لائن خطرات سے آگاہی
اپنے بچوں کو انٹرنیٹ پر موجود ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کریں۔ انہیں سکھائیں کہ وہ اجنبیوں سے آن لائن بات چیت نہ کریں، اپنی ذاتی معلومات جیسے کہ اپنا نام، پتہ، فون نمبر، یا سکول کا نام کبھی بھی شیئر نہ کریں۔ انہیں یہ بھی سمجھائیں کہ اگر انہیں آن لائن کوئی چیز پریشان کن لگے تو وہ فوراً کسی بڑے کو بتائیں۔ میں نے خود اپنے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ وہ ہر اس لنک پر کلک نہ کریں جو انہیں شک و شبہ میں ڈالے، یا کسی بھی ایسے پیغام کا جواب نہ دیں جو انہیں عجیب لگے۔ یہ سادہ سے اصول انہیں بہت سے آن لائن فراڈ اور ہراسانی سے بچا سکتے ہیں۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ آن لائن دنیا بھی اصلی دنیا کی طرح ہے جہاں اچھے اور برے لوگ دونوں ہوتے ہیں۔
پرائیویسی سیٹنگز اور انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال
بچوں کو یہ سکھائیں کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پروفائلز اور آن لائن گیمز کی پرائیویسی سیٹنگز کو کیسے استعمال کریں۔ انہیں بتائیں کہ صرف ان لوگوں کو دوست بنائیں جنہیں وہ اصلی زندگی میں جانتے ہیں اور جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی سکھائیں کہ وہ اپنے آن لائن پاس ورڈز کو کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں اور مضبوط پاس ورڈز استعمال کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے آن لائن استعمال کی نگرانی کریں، لیکن یہ نگرانی اعتماد کے ساتھ کی جانی چاہیے نہ کہ شک کی بنیاد پر۔ اس سے بچوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے والدین ان کی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہیں نہ کہ ان پر جاسوسی کر رہے ہیں۔
سائبر بلینگ اور اس سے بچاؤ
سائبر بلینگ (آن لائن دھونس) ایک سنگین مسئلہ ہے جو بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ اگر کوئی انہیں آن لائن دھونس یا ہراسانی کا نشانہ بنائے تو وہ کیا کریں۔ انہیں بتائیں کہ ایسے پیغامات یا کمنٹس کا جواب نہ دیں اور انہیں بلاک کر دیں۔ انہیں یہ بھی سکھائیں کہ ایسے واقعات کے سکرین شاٹس لیں اور کسی بڑے کو دکھائیں تاکہ ضروری کارروائی کی جا سکے۔ انہیں یہ یقین دلائیں کہ یہ ان کی غلطی نہیں ہے اور وہ اس میں اکیلے نہیں ہیں۔ میرا تجربہ رہا ہے کہ جب بچے جانتے ہیں کہ وہ اس صورتحال میں تنہا نہیں ہیں تو وہ زیادہ آسانی سے اس مسئلے کا سامنا کر پاتے ہیں۔
والدین کا کردار: بات چیت اور اعتماد سازی

میرے خیال میں بچوں کی حفاظت میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔ یہ صرف قوانین بنانے یا نگرانی کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک مضبوط اور قابل اعتماد رشتہ قائم کرنا ہے۔ جب بچے اپنے والدین پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں، تو وہ کسی بھی پریشانی یا مشکل میں سب سے پہلے ان کے پاس آتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار محسوس کیا ہے کہ جب میں نے اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ اور کھلی گفتگو کا ماحول قائم کیا، تو انہوں نے مجھے ایسے مسائل کے بارے میں بتایا جن کے بارے میں میں شاید کبھی جان بھی نہ پاتا۔ یہ اعتماد انہیں نہ صرف اپنی حفاظت میں مدد دیتا ہے بلکہ انہیں ایک مضبوط شخصیت بھی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہر موضوع پر کھل کر بات کریں، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔
کھلی گفتگو کی اہمیت
اپنے بچوں کے ساتھ ہر موضوع پر کھلی گفتگو کا ماحول قائم کریں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ کسی بھی چیز کے بارے میں آپ سے بات کر سکتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی یا بڑی بات کیوں نہ ہو۔ انہیں کبھی بھی کسی سوال پر شرمندہ نہ کریں یا ڈانٹیں نہیں۔ جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کے سب سے اچھے دوست ہیں، تو وہ ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب میرے بچے مجھ سے کسی مشکل موضوع پر بات کرنے آتے ہیں، تو میں انہیں سنتا ہوں، ان کے احساسات کو سمجھتا ہوں اور پھر انہیں صحیح رہنمائی دیتا ہوں۔ اس سے ان کا اعتماد مزید بڑھتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ ایک معاون ہاتھ ملے گا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں صبر اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔
بچوں کے سوالوں کا ایمانداری سے جواب دینا
جب بچے سوال پوچھیں تو ان کا جواب ایمانداری اور سادگی سے دیں۔ اگر آپ کو کسی سوال کا جواب نہیں معلوم تو یہ کہنے سے نہ ڈریں کہ ‘مجھے اس کے بارے میں مزید جاننا ہوگا اور پھر میں آپ کو بتاؤں گا’۔ غلط معلومات دینے سے بہتر ہے کہ آپ حقیقت پر مبنی اور عمر کے مطابق جواب دیں۔ بچوں کو یہ حق ہے کہ وہ سچ جانیں اور جب آپ ان کے سوالوں کا ایمانداری سے جواب دیتے ہیں، تو ان کا آپ پر اعتماد بڑھتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ یہی طریقہ اپنایا ہے اور مجھے اس کے مثبت نتائج ملے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ مجھ سے سچی معلومات ملے گی۔
گھریلو ماحول میں تحفظ کا احساس
اپنے گھر کے ماحول کو ایسا بنائیں جہاں بچے ہر وقت محفوظ محسوس کریں۔ انہیں یہ یقین ہو کہ گھر ان کی پناہ گاہ ہے اور یہاں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ نہ صرف جسمانی تحفظ ہے بلکہ جذباتی تحفظ بھی ہے۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار آزادی سے کر سکتے ہیں اور ان کے جذبات کو سراہا جائے گا۔ یہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں بچے پھلتے پھولتے ہیں اور اپنی پوری صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جب گھر کا ماحول محفوظ اور پرسکون ہوتا ہے تو بچے زیادہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔
سکول اور معاشرتی اداروں کی ذمہ داریاں
بچوں کی حفاظت صرف والدین کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں سکولوں اور معاشرتی اداروں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ یہ ادارے بچوں کو تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں، اور اس دوران ان کی حفاظت کو یقینی بنانا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ ایک مضبوط معاشرہ تبھی بنتا ہے جب اس کے تمام ادارے مل کر بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ اگر سکول اور معاشرتی تنظیمیں بھی اس موضوع پر اپنا کردار ادا کریں تو ہم اپنے بچوں کو ایک زیادہ محفوظ ماحول دے سکتے ہیں۔ ان اداروں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی حفاظت کے لیے واضح پالیسیاں بنائیں اور انہیں مؤثر طریقے سے نافذ کریں۔ یہ نہ صرف بچوں کو ممکنہ خطرات سے بچائے گا بلکہ انہیں مستقبل کے لیے ایک صحت مند اور محفوظ شہری بننے میں بھی مدد دے گا۔
سکولوں میں حفاظتی پروگرامز
سکولوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نصاب میں بچوں کی ذاتی حفاظت اور جسمانی آگاہی سے متعلق موضوعات کو شامل کریں۔ انہیں ایسے حفاظتی پروگرامز منعقد کرنے چاہئیں جو بچوں کو اچھے اور برے لمس کی پہچان، اپنی آواز اٹھانے کی اہمیت، اور مدد طلب کرنے کے طریقوں سے آگاہ کریں۔ ان پروگرامز میں والدین کی شرکت کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ گھر اور سکول دونوں جگہوں پر ایک ہی پیغام دیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے اپنے علاقے کے ایک سکول میں اس حوالے سے ایک ورکشاپ کروائی تھی تو والدین اور اساتذہ دونوں نے اس کی بہت تعریف کی اور اس کے بعد سکول نے باقاعدہ ایسے سیشنز کا اہتمام کرنا شروع کر دیا، جو کہ ایک مثبت تبدیلی تھی۔
کمیونٹی کی سطح پر آگاہی مہمات
معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی لیڈرز کو چاہیے کہ وہ بچوں کی حفاظت کے حوالے سے آگاہی مہمات چلائیں۔ ان مہمات کے ذریعے والدین اور عام عوام کو اس موضوع کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے اور انہیں بچوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات سکھائے جائیں۔ یہ مہمات سیمینارز، ورکشاپس، اور عوامی اجتماعات کی صورت میں ہو سکتی ہیں۔ جب پوری کمیونٹی اس مسئلے کے بارے میں سنجیدہ ہوگی، تو بچوں کے لیے ایک زیادہ محفوظ ماحول بنانا ممکن ہو سکے گا۔ یہ ایک ایسا اجتماعی عمل ہے جس میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ ہمارے بچے محفوظ مستقبل پا سکیں۔
قانونی مدد اور تحفظ کے ذرائع
معاشرے میں ایسے قانونی ادارے اور تنظیمیں بھی ہونی چاہئیں جو بچوں کو کسی بھی قسم کے استحصال یا بدسلوکی کی صورت میں مدد فراہم کر سکیں۔ والدین اور بچوں کو ان اداروں کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے اور انہیں یہ بتایا جانا چاہیے کہ وہ ان اداروں سے کیسے رابطہ کر سکتے ہیں۔ جب بچوں کو یہ یقین ہو کہ انہیں قانون کی مدد بھی حاصل ہو سکتی ہے، تو وہ زیادہ بااختیار محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی غلط کام کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو بچوں کو نہ صرف فوری مدد فراہم کرتا ہے بلکہ مستقبل میں بھی انہیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے۔
حفاظتی منصوبے بنانا: ہر خاندان کے لیے ضروری
ہر خاندان کو اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ایک واضح اور جامع حفاظتی منصوبہ بنانا چاہیے۔ یہ صرف ایک ہنگامی صورتحال کے لیے نہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی میں بھی بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ جب ایک منصوبہ موجود ہوتا ہے تو ہر فرد کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔ میں نے کئی والدین کو دیکھا ہے جو اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک فعال حفاظتی منصوبہ بہت سی پریشانیوں سے بچا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ بچوں کی عمر، ان کی ضروریات، اور خاندان کے مخصوص حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ انہیں نہ صرف جسمانی تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی ذہنی سکون کا بھی باعث بنتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس ایک بیک اپ پلان ہے۔
خاندانی حفاظتی منصوبہ کیا ہے؟
ایک خاندانی حفاظتی منصوبہ وہ دستاویز ہے جس میں اس بات کی تفصیل ہوتی ہے کہ اگر بچے کسی مشکل میں ہوں یا غیر متوقع صورتحال کا سامنا کریں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ بچے کس سے مدد مانگیں گے اور اس سے کیسے رابطہ کریں گے۔ یہ ایک ایسا روڈ میپ ہے جو بچوں کو مشکل وقت میں صحیح سمت دکھاتا ہے۔ اس میں گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہوں کے لیے حفاظتی حکمت عملی شامل ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر بچہ گھر کے باہر کسی اجنبی سے سامنا کرے تو اسے کیا کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو بچوں کو اپنے ماحول میں زیادہ باخبر اور محفوظ محسوس کراتا ہے۔
ایمرجنسی صورتحال میں رابطے
اپنے حفاظتی منصوبے میں اہم ایمرجنسی رابطوں کی ایک فہرست شامل کریں۔ اس میں والدین کے نمبرز، دوسرے رشتہ داروں کے نمبرز، پڑوسیوں کے نمبرز، اور ایمرجنسی سروسز (جیسے پولیس یا ایمبولینس) کے نمبرز شامل ہوں۔ اس فہرست کو ایسی جگہ پر رکھیں جہاں بچے آسانی سے دیکھ سکیں اور اسے یاد بھی کر سکیں۔ انہیں سکھائیں کہ ان نمبرز پر کب اور کیسے کال کرنی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی معلومات ہے جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں جان بچا سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو اپنے اور گھر کے دوسرے اہم افراد کے نمبرز یاد کروائے ہیں، تاکہ اگر کبھی کوئی مشکل ہو تو وہ کسی سے بھی رابطہ کر سکیں۔
منصوبے کو باقاعدگی سے دہرانا
حفاظتی منصوبے کو صرف ایک بار بنا کر چھوڑ نہ دیں بلکہ اسے باقاعدگی سے دہرائیں اور اس پر عمل کرنے کی مشق بھی کریں۔ بچوں کے ساتھ اس منصوبے پر گفتگو کریں اور انہیں وقتاً فوقتاً اس کے بارے میں یاد دلاتے رہیں۔ بچے اکثر چیزیں بھول جاتے ہیں، اس لیے انہیں باقاعدگی سے یاد دہانی ضروری ہے۔ اس سے انہیں یہ منصوبہ اچھی طرح یاد ہو جائے گا اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں وہ صحیح رد عمل ظاہر کر سکیں گے۔ آپ سال میں ایک یا دو بار اس کی مشق بھی کر سکتے ہیں تاکہ بچے عملی طور پر اس کا استعمال سیکھ سکیں۔
| والدین/سرپرستوں کے لیے اہم نکات | بچوں کے لیے حفاظتی اقدامات |
|---|---|
| کھلی اور ایماندارانہ گفتگو کا ماحول بنائیں۔ | اپنے جسم کے حصوں، خاص طور پر نجی حصوں کے بارے میں جانیں۔ |
| اچھے اور برے چھونے میں فرق سکھائیں۔ | اگر کوئی لمس برا لگے تو فوراً “نہیں” کہیں اور وہاں سے ہٹ جائیں۔ |
| قابل اعتماد افراد کی فہرست تیار کریں جن سے بچہ مدد مانگ سکتا ہے۔ | کسی پریشانی کی صورت میں والدین یا قابل اعتماد بڑے کو بتائیں۔ |
| آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کریں اور ڈیجیٹل خطرات سے آگاہ کریں۔ | آن لائن اپنی ذاتی معلومات اجنبیوں سے شیئر نہ کریں۔ |
| ایک خاندانی حفاظتی منصوبہ بنائیں اور اس کی باقاعدگی سے مشق کریں۔ | ہنگامی صورتحال میں رابطہ نمبرز یاد رکھیں اور انہیں استعمال کرنا سیکھیں۔ |
글을 마치며
میرے عزیز قارئین، یہ بچوں کی حفاظت کا سفر کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل کوشش ہے جس میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ اس گفتگو سے آپ کو اپنے پیاروں کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی مضبوط بنانے کے لیے کئی اہم نکات ملے ہوں گے۔ یاد رکھیں، بچوں کے ساتھ ایک کھلا اور ایماندارانہ رشتہ ہی ان کی سب سے بڑی حفاظت ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے بچوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں وہ خوف کے بغیر بڑھ سکیں، سیکھ سکیں اور اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے اور ہماری محبت کا تقاضا بھی۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. اپنے بچوں کو ان کے جسم کے ہر حصے کا صحیح نام بتائیں، خاص طور پر نجی حصوں کا، اور انہیں سمجھائیں کہ ان کا جسم ان کی ذاتی ملکیت ہے جس پر کسی اور کا حق نہیں۔ انہیں سکھائیں کہ وہ اپنے جسم کی حدود کا تعین خود کریں۔
2. بچوں کو اچھے اور برے چھونے میں فرق کرنا سکھائیں؛ جو لمس انہیں عجیب، ڈراونا، یا تکلیف دہ محسوس ہو، اسے فوراً ‘برا’ کہیں اور وہاں سے ہٹ جائیں، اور کسی قابل اعتماد بڑے کو فوراً بتائیں۔
3. انہیں اپنی آواز اٹھانے کی ہمت دیں اور ‘نہیں’ کہنا سکھائیں۔ انہیں یہ یقین دلائیں کہ ان کی بات سنی جائے گی اور ان پر یقین کیا جائے گا، چاہے صورتحال کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔
4. ڈیجیٹل دنیا کے ممکنہ خطرات کے بارے میں انہیں آگاہ کریں؛ انہیں آن لائن اجنبیوں سے بات چیت نہ کرنے، ذاتی معلومات شیئر نہ کرنے، اور پریشان کن مواد کو نظر انداز کرنے کی تربیت دیں۔
5. اپنے خاندان کے لیے ایک جامع حفاظتی منصوبہ تیار کریں جس میں ایمرجنسی رابطے، محفوظ جگہیں، اور غیر متوقع حالات میں کیے جانے والے اقدامات شامل ہوں، اور اس منصوبے کو باقاعدگی سے دہراتے رہیں۔
중요 사항 정리
ہم نے آج بچوں کی حفاظت کے لیے کئی اہم پہلوؤں پر بات کی ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو اپنے جسم کی پہچان اور اس کے تحفظ کے بارے میں مکمل معلومات دی جائیں۔ انہیں اچھے اور برے چھونے میں فرق سکھایا جائے تاکہ وہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کو پہچان سکیں۔ اس کے بعد، انہیں اپنی آواز اٹھانے اور کسی بھی مشکل کی صورت میں مدد مانگنے کی ترغیب دینا بے حد ضروری ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر، بچوں کو آن لائن محفوظ رہنے کے طریقے سکھانا بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ آخر میں، والدین کا کردار سب سے اہم ہے، انہیں اپنے بچوں کے ساتھ کھلی اور ایماندارانہ گفتگو کا ماحول قائم کرنا چاہیے تاکہ بچے اعتماد کے ساتھ اپنی پریشانیاں شیئر کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سکولوں اور معاشرتی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی حفاظت کے لیے مؤثر پروگرامز اور آگاہی مہمات چلائیں۔ اور سب سے بڑھ کر، ہر خاندان کو اپنے لیے ایک حفاظتی منصوبہ تیار کرنا چاہیے اور اس کی باقاعدگی سے مشق کرنی چاہیے تاکہ بچے کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔ یہ تمام اقدامات مل کر ہمارے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور مضبوط مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: بچوں کے ساتھ ان کے جسم اور ذاتی حدود کے بارے میں بات چیت کیسے شروع کی جائے؟
ج: یہ سوال میرے بھی ذہن میں بار بار آتا تھا، اور مجھے یقین ہے کہ ہر والدین یہی سوچتے ہوں گے۔ سب سے پہلی بات جو میں اپنے ذاتی تجربے سے کہوں گا وہ یہ ہے کہ اس بات چیت کو قدرتی اور عام بنائیں۔ اسے کسی خاص، الگ تھلگ موضوع کے طور پر پیش نہ کریں۔ جب آپ اپنے بچے کو نہلا رہے ہوں، کپڑے پہنا رہے ہوں، یا عام کھیل کود کے دوران بھی اس کے جسم کے مختلف حصوں کے بارے میں سادہ زبان میں بات کریں۔ جیسے “یہ آپ کا ہاتھ ہے”، “یہ آپ کی ناک ہے” وغیرہ۔ پھر آہستہ آہستہ اسے “نجی حصوں” کا تصور سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جنہیں کوئی اور نہیں چھو سکتا، سوائے امی ابو کے جب وہ ان کی دیکھ بھال کر رہے ہوں۔ انہیں چھوٹے بچوں کی کتابوں اور کہانیوں کے ذریعے بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔ ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھیں، اپنے بچے کے ساتھ ایک ایسا رشتہ بنائیں جہاں وہ آپ سے کھل کر ہر بات کر سکے۔ جب آپ اس کے سوالات کو سنجیدگی سے سنیں گے، چاہے وہ کتنے ہی سادہ کیوں نہ ہوں، تو وہ محسوس کرے گا کہ آپ اس کے ساتھ ہیں اور ہر بات سنیں گے۔ میری رائے میں، یہ سب سے اہم قدم ہے کہ بچے کے دل میں اعتماد کا بیج بویا جائے تاکہ وہ کبھی کچھ چھپائے نہیں۔
س: اگر بچے کو کسی نامناسب صورتحال کا سامنا ہو تو والدین کیسے پہچان سکتے ہیں اور انہیں کیسے رد عمل ظاہر کرنا چاہیے؟
ج: یہ ایک ایسا خوف ہے جو ہر والدین کو لاحق ہوتا ہے۔ میں نے خود کئی بار سوچا ہے کہ اگر خدانخواستہ میرا بچہ ایسی کسی صورتحال کا شکار ہو تو مجھے کیسے پتہ چلے گا۔ کچھ عام نشانیاں ہیں جن پر ہمیں دھیان دینا چاہیے۔ جیسے کہ بچے کے رویے میں اچانک تبدیلی آنا – اگر وہ چڑچڑا ہو جائے، اکیلا رہنا پسند کرنے لگے، رات کو ڈرنے لگے، یا اسکول جانے سے کترائے۔ بعض اوقات جسمانی نشانات بھی ہو سکتے ہیں جن پر ہماری نظر پڑنی چاہیے۔ اگر بچہ کسی خاص شخص یا جگہ سے خوف محسوس کرنے لگے، یا اس کے سونے اور کھانے کی عادات بدل جائیں تو یہ بھی الارم کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ کا بچہ آپ کو کچھ بتائے تو اسے فوری طور پر سنجیدگی سے لیں۔ اس کی بات کو جھوٹ نہ سمجھیں اور اسے ڈرائیں نہیں۔ اس سے کہیں کہ اس نے بہت ہمت دکھائی ہے اور آپ اس کے ساتھ ہیں۔ فوری طور پر بچے کو محفوظ محسوس کرائیں اور اس کی تمام باتوں کو غور سے سنیں۔ اس سے مزید سوالات پوچھیں تاکہ پوری صورتحال کو سمجھ سکیں، لیکن یاد رہے کہ سوالات پوچھتے وقت نرمی کا مظاہرہ کریں۔ اس صورتحال میں جذباتی ہونا فطری ہے، مگر ہمیں ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ہوگا تاکہ بچے کو مزید صدمہ نہ پہنچے۔ پھر بلا تاخیر کسی ماہر کی مدد لیں اور متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں۔ ہمارے لیے اپنے بچوں کی حفاظت سب سے مقدم ہے۔
س: والدین اپنے بچوں کو “اچھی چھو” اور “بری چھو” کا فرق کیسے سمجھا سکتے ہیں تاکہ انہیں خوفزدہ نہ کیا جائے؟
ج: یہ ایک بہت ہی اہم اور نازک موضوع ہے، جسے سمجھانا واقعی ایک فن ہے۔ میں نے بھی اس بارے میں بہت سوچا ہے کہ کیسے اپنے بچوں کو یہ بات سکھاؤں کہ وہ ڈریں نہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ مثبت انداز میں بات شروع کریں۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ اچھی چھو وہ ہوتی ہے جو انہیں پیار اور تحفظ کا احساس دے، جیسے امی ابو کا گلے لگانا، دادا دادی کی تھپکی، یا دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں چھونا۔ یہ وہ چھو ہوتی ہے جو ان کے دل کو خوش کرے۔پھر آہستہ سے “بری چھو” کے بارے میں بتائیں۔ انہیں سمجھائیں کہ بری چھو وہ ہوتی ہے جو انہیں عجیب، ڈراونا، پریشان کن، یا تکلیف دہ محسوس ہو۔ انہیں بتائیں کہ ان کے جسم پر کچھ حصے ایسے ہیں جہاں انہیں کوئی بھی چھو نہیں سکتا، اور اگر کوئی چھوئے تو انہیں فورا “نہیں” کہنا ہے اور وہاں سے ہٹ جانا ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ یہ جانیں کہ انہیں کسی کی بھی چھو کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں جو انہیں ناگوار گزرے۔ انہیں سکھائیں کہ اگر انہیں کوئی بری چھو محسوس ہو تو وہ فورا آپ کو، استاد کو، یا کسی ایسے بالغ کو بتائیں جس پر وہ بھروسہ کرتے ہوں۔ انہیں یاد دلائیں کہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے جسم پر کسی اور کو چھونے نہ دیں جب تک وہ خود نہ چاہیں۔ یہ سکھاتے ہوئے کبھی بھی بچے کو خوفزدہ نہ کریں بلکہ انہیں بااختیار محسوس کروائیں کہ وہ اپنے جسم کے مالک ہیں اور انہیں اپنی حفاظت کا پورا حق ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، ایک بار بتانے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ ہمیں یہ باتیں وقتاً فوقتاً دہراتے رہنا ہوں گی۔






